Tuesday, December 16, 2014

سرد سیاہ رات۔۔

ہر روز صبح گھر کے باہر وین کا انتظار کرتے ہوئے آغاز دن کے ڈھیڑ سارے مناظر دیکھتی ہوں, مگر جو ہر بار مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے, جسے دیکھ کر دل دکھتا ہے وہ کچڑا اٹھانے والے اس معصوم بچہ پر جو ابھی بمشکل سات آٹھ برس کا ہوگا.


آج سے ایک سال پہلے وہ پیارا سا بچہ عیدوں پر نئے کپڑے پہن کر بس عیدی لینے آیا کرتا تھا اب وہ روز کچڑا اٹھانے آتا ہے. اپنی ذات سے وزنی کچڑا اٹھائے ہوے, بہت محنت سے کام کرتا ہے. آج تک ماتھے پر ایک شکن تک نہیں دیکھی. مین سوچتی ہون کہ ہم کیسے انسان ہیں ناشکرے, بہترین زندگی گزارنے کے باوجود نہیں ہیں اور دوسری طرف لوگ تعلیم جیسی بنیادی ضرورت تک سے دور ہیں

پھر آج ٹی وی پر پشاور کے اسکول پر حملہ کی خبر دیکھ کر دل ڈوب سا گیا. ہم کیسے انسان ہیں؟ یہ کیسا ظلم ہے؟ سیاست, حکمرانیت کے بیچ بچے کہاں سے آئے؟



اک لمحہ کو خود اس جگہ رکھیں, روح کانپ جاتی ہے. ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا کر رہے ہین کچھ پتا نہیں ہے. وہاں دن دھاڑے بے رحمی سے خون بہایا جا رہا ہے مگر ہم اس پر بھی سیاست کر رہے ہیں, کیا ہوگیا ہے ہمیں؟

آخر جنگ ہے کس کی؟ مال کی, کرسی کی, سیاست کی یا دہشتگردی کی؟ یا ہم نے اپنوں کے خلاف ہی سارے محاذ کھول رکھے ہیں؟
کہاں تعلیم حاصل کرنے کو میں بنیادی ضرورت کہ رہی تھی کہاں ماں باپ اب اپنی اولاد کو اسکول بھیجنے پر بھی ہزار بار سوچیں گے. ایسا سلوک تو جانوروں کے ساتھ نہیں کیا جاتا.
آخر اپنی جنگ میں دوسروں کے گھر اجارنے کا حق کس نے دیا؟