انسان بھی بے حد عجیب ہوتا ہے، ہر وقت اپنے آپ سے لڑ رہا ہوتا ہے۔ اکثر تو اپنے آپ احساسات سے لڑ لیتا ہے اور کبھی اس کے احساسات جیت جاتے ہیں اور اس پر حاوی ہو جاتے ہیں۔
زندگی کے جھمیلوں میں شاید نانا نانی کی یادوں کو وقتی طور پر بھول ضرور جاتی ہوں مگر جب انکی یاد آتی ہے تو دل ہر چیز سے اچاٹ ہو جاتا ہے۔ آج نانی کو اور پھر ٢٤ کو نانا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تیرہ سال ہوجائیں گے مگر آج بھی ان کے ساتھ گزرے پلوں کی مہک مجھے بے حد عزیز ہے۔
جب ان کا انتقال ہوا تو میں بہت چھوٹی تھی، زندگی کو، لوگوں کو، محبت کو شاےد سمجھنے کی اہل نہ تھی۔ کبھی کبھار میں سوچتی ہوں کہ کاش مجھے ان کا سایہ دیر تک ملتا مگر الله بہترین منصوبے بنانے والا ہے۔
نانا نانی کی وفات کے بعد ہم نے لاہور جانا کم کردیا، اب تو شاید کوئی بے چینی بھی نہیں ہوتی، ورنہ بچپن میں گرمیوں کی تعطیلات لاہور ہی گزرا کرتی تھیں۔
آج بھی مجھے یاد ہے، نانا عصر کے بعد قرآن پڑھا کرتے تھے اور ہم کزنز کو ہر وقت کھیلتا کودتا دیکھ کر کہا کرتے تھے “یہ جوڑی نامعقولوں کی لاحول ولا“، یا پھر ہماری شیطانیوں پر کوئی شعر سنا دیا کرتے تھے۔
گھر کے سامنے ہی بازار تھا، ہر دوسرے دن شام کو کھیل کود کے بعد نانا کے سامنے جلیبیوں اور سموسوں کی فرمائش ڈال دینا اور انھیں کھا کے بھی الگ خوشی ہوتی تھی۔
نانا ہمیشہ “فوکس“ ٹوفی کھایا کرتی تھے، جسکا ڈبہ وہ اپنی الماری میں رکھا کرتے تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے بھی آج فوکس پسند ہے۔ خیر جب جب وہ الماری کھولا کرتے تھے، تب تب ہم فوکس کھانے کی فرمائش کرتے تھے، جسے وہ پورا کرتے تھے،
لیکن سب سے زیادہ مجھے نانی کی یاد آتی ہے، میں نے ایک سال میں ان کی صحت کو گرتا دیکھا ہے۔ نانی کو کینسر نے ایک سال میں ہی نڈھال کر دیا۔
نانی نے میرے بہت نخرے اٹھائے ہیں، کوئی لاھور سے کراچی آئے جائے اس کے ہاتھ میرے لئے کپڑے سی سی کر بھیجنا، اور جب ہم لاہور جاتے تھے تو انکی الماری کے ایک خانے میں میرے لئے کپڑے ہوا کرتے تھے، جو انھوں نے میرے لئے سیئے ہوتے تھے۔
میرے علاوہ ہم سب بچوں کے نخرے اٹھانا اور اچھی اچھی باتیں بتانا۔
آج بھی مجھے ٢٠٠٢ کا جون جولائی یاد ہے، چونکہ نانی کو چلنے پھرنے میں دقت ہوتی تھی تو روز رات کھانے کے بعد ہم سب بچے بڑے مل کر نانا نانی کے کمرے میں محفل جماتے تھے۔ بچپن کا دور تھا میں بھی بڑھ چڑھ کر لطیفے سنایا کرتی تھی۔ سب خوش ہوتے تھے، نانی بھی۔
ہماری واپسی سے ایک رات قبل نانی نے سب کے سامنے مجھ سے کہا، “میری بیٹی بن جاؤ۔“ جس کا جواب اقرار تھا، اور پھر انھوں نے سب کزنز کو کہا “آج سے یہ تمھاری چھوٹی پھوپھو ہے۔“
آج بھی کوئی چھوٹی پھوپھو یا ماموں بناسپتی بہن کہتے ہیں تو صرف نانی کی یاد ہی آتی ہے۔
آج بھی انہی طرح کے دنوں میں سے ایک دن ہے، انسان کی زندگی کی بےثباتی کا کسی کو کیا معلوم، صرف یادیں ہی تو پیچھے رہ جاتی ہیں۔