Wednesday, August 28, 2013

محبت

"دل عجیب شہ ہے، عجیب چیزیں مانگتا ہے۔ عجیب چیزیں کرنے کو کہتا ہے۔“
چھ سے زاءد ماہ گزر جانے کے با وجود شہر ذات کے یہ جملے ہر وقت میرے دل و دماغ پر چھاءے رھتے ہیں۔ انسان واقعی بڑی عجیب شہ ہے۔ ہماری محبتیں اور چاھتیں بھی بڑی عجیب ہیں۔ جن کو ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں نہیں اور جو ہمیں چاہتے ہیں ہم انھیں نہیں۔ محبت اور چاہت کو ویسے تو ہم نے مجازی محبوب سے منسوب کر دیا ہے۔ انسان محبت کو پتہ نہیں کوئ الگ ہی دنیا سمجھتا ہے، عجیب و غریب خوابوں کی دنیا. لیکن انہی لوگون سے جب محبت کی بہترین مثال مانگو تو وہ ماں جیسی ہنستی کی مثال دیتے ہیں، گویا سب کو اپنے محبوب کی محبت کی بے ثباتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ دنیا میں آکر انسان نئ نئ محبتوں میں الجھ جاتا ہے مگر افسوس وہ زندگی میں سب سے اہم اور ضروری محبت کو بھلا دیتا ہے۔ماں کی محبت سے ستر گناہ زیادہ محبت، انسان کیسے بھول جاتا ہے؟ بلکہ سوال یہ کہ کیوں بھول جاتا ہے؟ گناہ پہ گناہ کو معاف کرنے والا، دعاٰءیں قبول کرنے والا، آنسوؤں کو سہارا دینے والا۔۔ اس کی محبت کو کس طرح ہم بھلا سکتے ہیں؟
یہ لکھتے وقت میں سوچتی ہوں کہ میں خود بھی تو ایک خطاکار اور گناھگار انسان ہوں جس نے دنیاوی محبت کو زندگی میں زیادہ اہمیت دی ہوئ ہے۔ پتہ نہیں ہم انسان ایسے کیوں ہیں؟ الله نے ہمیں کھلی ہدایت دی ہے، سمجھ بوجھ بھی دی ہے مگر پھر بھی ہم نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے۔ شاید ہم نے اگلی زندگی کا سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں اپنی اصلی زندگی، ہمیشہ رھنے والی زندگی کا خیال ہی نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ زیادہ آگے کا نہیں سوچنا چاھیے،لیکن وہ ہی تو سب سے ضروری ہے، آگے کا سوچنا ہی تو اہم ہے کیونکہ آگے جاکر الله کو جواب دینا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ انسان اور اس کے دل کے درمیان صرف اس ایک ذات کی محبت حاءل ہونی چاھیے۔ اس کی محبت ہوگی تو ہر دنیا کی ہر مشکل، دکھ، ہر محبت کو کنارہ مل سکتا ہے۔
الله سے دعا ہے کہ وہ اپنی محبت سے ہمارے دل آباد کرے۔ (آمین)

Thursday, August 22, 2013

A Simple Act of Kindness Can Stir the Widest Ocean..

Sitting comfortably on the sand she saw her younger cousins jumping and having fun in the water at a distance. She was always fond of the beach, she loved it: its depth, its unpredictability. With Sammy, her cat resting on her lap she kept looking from one kid to other. She was plunged into deep thoughts.

 Out of those eight children why would only one be so crazy over her? She was never among those who’d differentiate between children; she treated them all equally well but she never understood why everyone treated her differently. All of a sudden her thoughts jumbled, her kitty jumped from her lap to attack on the bird sitting nearby.

 “No Sammy NO!” She yelled. But her kitty ignored and went to the other direction. “So this is life, you take care and love someone more than yourself, take care of them like your baby even they’ll ignore you” She thought as she watched Sammy go away. “But then why only Alizeh?” Her thoughts confused her.

 Alizeh was her youngest cousin, nine years younger than her and despite their differences that little girl copied her. From her walking, talking, posing, and eating to even the words she spoke the most. She was surprised how much a seven year old can observe. Deep into her thoughts she didn’t realize that she was continuously staring Alizeh, her chained thoughts broke and found Alizeh staring at her. She smile and a warmer smile was what she got in return and within seconds she saw Alizeh running towards her, drenched in sweat and out of breath Alizeh asked,

 “Why don’t you join us? We are having a lot of fun.” “I am fine here, there has to be someone who has to take care of the stuff as well, go and enjoy darling”, She replied softly.

“You know what? You are very sweet, you always smile, talk softly, and never say no. I like you, you’re very kind.” after speaking Alizeh kissed her hand and ran towards the other kids. She was surprised at the little girl’s purity, her smiled broadened and she felt like a true hero.


She watched the orange sun setting in the deep blue sea and thought “So you really don’t need to be superman or batman, you can be anyone’s hero. All you need is one kind word and you can win any battle.”



#PBCWeeklyChallenge

Tuesday, August 6, 2013

ادھوری کہانی

آج بارش میں اپنےبھیگتے وجود سے اسے عجیب وحشت ہوئ تھی- بارش سے نہ خوشی ملی تھی نہ راحت، بلکہ اضطراب مزید بڑھتا گیا- ہر بار اپنے اعتبار کو کرچی کرچی ہوتا دیکھ کر وہ انھی نا قابل بیان کیفیات سے دوچار ہوتی تھی- وہ کمزور نہیں تھی، نہ آنسو بہاتی تھی اور نہ ہی دوسروں سے شکوہ تھا۔ شکایت تھی تو خود سے اور گلہ بھی-

کچھ زخم بہت عجیب ہوتے ہیں، جب چھیڑو رستے ہیں، درد دیتے ہیں، تکلیف پہنچاتے ہیں۔ کئ بار ٹھوکر کھانے کے باوجود آج پھر وہ وہیں کھڑی تھی۔ آج بھی اس کے اندر ایک جنگ جاری تھی، ایک طوفان تھا، الاؤ ابلنے کو تھا۔ ماضی کے سارے تجربات اپنی یادوں سے اسے بوجھل کر رہے تھے-

وہ اسی کشمکش میں تھی کہ پیچھے سے آنے والی آواز اس کی سمعاتوں سے ٹکرائ اور اسے اس تلخ دنیا میں واپس لے آئ؛
“یار بس بھی کرو، بارش رکنے والی ہے مگر تمھارے مزے نہیں“
“مزے؟“ اس نے خود سے پوچھا۔
بے خیالی میں پیچھے مڑی تو دوست کو جواب کا منتظر پایا- جواب دینے کی بجاے وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی صرف مسکرائ اور دوست کے پیچھے چل دی۔ اپنے اندر جاری جنگ کو ادھورا چھوڑ کر، بے شمار سوالوں کے جواب ادھورے چھوڑ کر، اپنے اندر کے الاؤ کو باہر نکالے بغیر- ہمیشہ کی طرح یہ کہانی بھی ادھوری چھوڑ کر-