Saturday, October 17, 2015

رکشہ کہانی

رکشے سے اتر کر وہ جتنی جلدی گھر داخل ہوسکتی تھی اور دروازہ کی کنڈی لگا سکتی تھی اس نے کیا، آج اسے رکشے میں سفر کر کے واقعی خوف محسوس ہوا تھا۔ ایسا نہیں تھا اسے رکشوں میں سفر کی عادت نہیں تھی، وہ رکشوں میں سفر کرتے کرتے بڑی ہوئی تھی، اور نہ ہی اکیلے آنے جانے مین اسے خوف محسوس ہوا تھا۔

اسے کچھ دن پہلے یونیورسٹی سے کیے گئے رکشہ سواری کی یاد آگئی۔ میک اپ سے عاری چہرہ، لباس بھی ہر قسم کی عیاری سے پاک، سمٹے بال اور ڈوپٹے میں لپٹی وہ۔

“بھائی زمزمہ جانا ہے، کتنے پیسے لیں گے؟“
ڈھائی سو سن کر وہ مطمئن ہوگئی کیونکہ باقیوں کی نسبت یہ مناسب کرایہ تھا۔ رکشہ کا سفر جیسے آغاز ہوا، اسے ریویو مررز اپنی طرف مرتے محسوس ہوگئے تھے، آدھی شکل جو ڈوپٹے میں چھپی تھی وہ اب مکمل طور پر چھپ چکی تھی۔ اسے معلوم تھا وہ ایک معمولی شکل کی مالک تھی، مگر شکل معمولی ہو یا خاص معاشرے میں عموماً مردانہ رویہ اکثر اوقات ایسا ہی رہا ہے۔

اسے رکشہ کی رفتار بھی معمول سے ہلکی محسوس ہوئی۔ خیر وہ بھی سخت چہرے کے ساتھ بیٹھی رہی اور ہر بار کی طرح دل ہی دل میں دعائیں پڑھتی رہی۔ تھوڑا آگے بڑھ کر اسے اسے یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ رکشے والے نے راستہ بھی لمبا اختیار کیا ہے، جس پر اس نے ڈرائیور کو عارے ہاتھوں لیا تھا، راستوں کا علم ہونے کے باعث اسے بہت بار مشکلات سے بچنے میں آسانی ہوئی تھی۔

بے حد ہلکی رفتار اور ضرورت سے لمبے راستے کو طے کرنے کے بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ تو گئی مگر کس عذاب سے گزر کر، یہ وہی جانتی ہے۔

پھر لوگ کہتے ہیں رکشہ تو عورتوں کی سواری ہے۔ ایسی سواری جس میں وہ تحفظ بھی محسوس نہ کریں؟